Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
3 - 1581
تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
یتولی طرفی النکاح واحد لیس بفضولی ولومن جانب وان تکلم بکلامین علی الراجح۱؎ ملخصا اھ
جو شخص دونوں جانب سے نکاح کا ولی ہو وہ کسی جانب سے بھی فضولی نہ قرار پائے گا اگرچہ وہ ایجاب وقبول دو کلاموں سے ادا کرے، یہ راجح قول ہے ملخصاً اھ (ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    باب الکفاءۃ                    مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۱۹۶)
ردالمحتار میں ہے:
اذا کان فضولیا منھما اومن احدھما ومن الاٰخر اصیلااووکیلااوولیا ففی ھذہ الاربع لایتوقف بل یبطل عندھما خلافا للثانی حیث قال یتوقف علی قبول الغائب کما یتوقف اتفاقا لوقبل عنہ فضولی اٰخر قولہ وان تکلم بکلامین خلافا لما فی حواشی الھدایۃ وشرح الکافی من انہ لوتکلم بکلامین یتوقف اتفاقا وردہ فی الفتح بان الحق خلافہ ولاوجود لھذا القید فی کلام اصحاب المذھب ۲؎ اھ مختصراً۔
اگر کوئی شخص دونوں جانب سے فضولی ہو یا ایک جانب سے فضولی اور دوسری جانب سے اصیل ہو یا وکیل یا ولی ہو تو ان چاروں صورتوں میں نکاح موقوف نہ ہوگا بلکہ امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک باطل ہوگا، امام یوسف اس کے خلاف ہیں ان کے نزدیک یہ موقوف ہوگا جس طرح ایک فضولی کی طرف سے ایجاب کو دوسرا فضولی قبول کرلے تو بالاتفاق موقوف ہوتا ہے، قولہ (اس کا قول) کہ اگرچہ دو کلاموں سے ایجاب وقبول کرے، یہ خلاف ہے اس کے جو ہدایہ کے بعض حواشی اور کافی کی شرح میں ہے کہ اگر دو کلاموں سے اس نے ادا کیا تو بالاتفاق نکاح موقوف ہوگا، اس کو فتح میں رد کردیا گیا ہے کیونکہ حق اس کے خلاف ہے اور اس قید کا اصحاب مذہب میں کوئی وجود نہیں ہے اھ مختصراً (ت)
 (۲؎ ردالمحتار         باب الکفاءۃ        مطلب فی الوکیل والفضولی فی النکاح    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۲۶)
تنویر میں ہے:
لابن العم ان یزوج بنت عمہ الصغیرۃ من نفسہ ۳؎۔
چچا زاد کو جائز ہے کہ وہ اپنی چچا زاد نابالغہ کا خود اپنے ساتھ نکاح کرلے۔ (ت)
 (۳؎ درمختار شرح تنویر الابصار    باب الکفاءۃ                    مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۱۹۶)
شامی میں ہے:
ولایخفی ان المراد حیث لاولی اقرب منہ ۱؎۔
اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس سے زیادہ قریب کوئی اور ولی نہ ہو۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     باب الکفاءۃ     مطلب فی الوکیل والفضولی الخ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۲۷)
شرح علائی میں ہے:
لوزوج الابعد حال قیام الاقرب توقف علٰی اجازتہ ۲؎ اھ
اگر بعید ولی نے اقرب کی موجودگی کے باوجود نابالغہ کانکاح کیا تو یہ اقرب ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا اھ (ت)
 (۲؎ درمختار    باب الولی                مجتبائی دہلی            ۱/۱۹۴)
اقول فافادان الابعد عند حضور الاقرب فضولی فاذاتولی الشطرین بطل۔
اقول اس کلام کا مفاد یہ ہے کہ اقرب کی موجودگی میں بعید ولی، فضولی قرار پائے گا۔ لہذا اگر بعید اس صورت میں دونوں جانب سے ولی بن کر نکاح کرے تو نکاح باطل ہوگا (ت)
اسی میں ہے:
فلو کبیرۃ فلابد من الاستیذ ان (قبل العقد اھ ش) حتی لو تزوجھا بلااستیذان فسکتت اوافصحت بالرضی لایجوز عندھما (لانہ تولی طرفی النکاح وھو فضولی من جانبھا فلم یتوقف عندھما بل بطل اھ ش) وقال ابویوسف یجوز ۳؎ اھ مزیدا من حاشیۃ الشامی۔
اگر لڑکی بالغہ ہو تو اس سے اجازت لینا ضروری ہے (قبل از نکاح اھ ش) حتی کہ اگر فضولی نے اس سے خود نکاح بغیر اجازت کرلیا اور لڑکی خاموش رہی یا  نکاح کے بعد اس نے رضامندی ظاہرکی توا مام اعظم اور امام محمد کے قول پر نکاح جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ بالغہ کی موجودگی میں خود اس کی طرف سے فضولی ہے لہذا دونوں اماموں کے نزدیک یہ نکاح موقوف نہ ہوگا بلکہ باطل ہوگا اھ ش، اور امام ابویوسف کے قول پر جائز ہے۔ اضافی عبارت حاشیہ شامی کی ہے۔ (ت)
 (۳؎ درمختار    باب الکفاءۃ                   مجتبائی دہلی        ۱/۱۹۶

ردالمحتار    باب الکفاءۃ               داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۲۷    )
فتح القدیر میں ہے:
وکلتہ ان یزوجھا مطلقا فانہ لو زوجھا من نفسہ لایجوز ۱؎۔
اگر بالغہ نے کسی کو کہا کہ میرا نکاح کردے اور کوئی تخصیص نہ کی اس صورت میں اگر اس شخص نے اس کا نکاح خود اپنے ساتھ کرلیا تو جائز نہ ہوگا۔ (ت)
 (۱؎ فتح القدیر   فصل فی الوکالۃ بالنکاح المکتبۃ النوریہ ا لرضویہ سکھر ۳/۱۹۷)
الحمد للہ حکمِ مسئلہ مفصل ومنقح ہوگیا اور سوال کی صورت کلیہ یعنی "تولی الواحد طرفی النکاح" اور الفاظ جزئیہ یعنی "زوجت بنت عمی فلانۃ من نفسی" (نکاح کی دونوں جانب سے ایک ہی شخص کا ولی بننا اور جزئیہ کے الفاظ کہ میں  نے چچا زاد کا نکاح اپنے ساتھ کرلیا۔ ت) دونوں کے متعلق احکام وخلافیات علمائے کرام وتصحیحات ائمہ وغیرہا ضروریات متعلقہ مقام، سب نے وضوح تام  وانجلائے تمام پایا اسی قدر بس ہے اور زیادہ تفصیل کی حاجت نہیں، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۳: علمائے دین اور مفتیان شرع متین بیچ اس مقدمہ کے کیا فرماتے ہیں ایک عورت ہے کہ اس کے علامت سوائے مخرج بول کے اور نہیں ہے اور نکاح اس کا زید سے ہو گیا ہے، بعد نکاح ہونے کے یہ حال معلوم ہوا، اب اس کا نکاح درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب :صورت مسئولہ میں وہ نکاح صحیح اور نصف مہر ذمہ زید لازم،
فی فتاوی الامام قاضی خان:
خیار العیب وھو حق الفسخ بسبب العیب عندنا لایثبت فی النکاح فلاترد المرأۃ بعیب ما  ۲؎
فتاوٰی قاضی خاں میں ہے خیار عیب جو کہ عیب کی وجہ سے حق فسخ کا نام ہے، ہمارے نزدیک یہ نکاح میں ثابت نہیں ہوتا، لہذا کسی عیب کی بنا پر عورت کا نکاح رَد نہ ہوگا،
 (۲؎ فتاوٰی قاضیخاں    فصل فی الخیارات التی تتعلق بالنکاح    نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۸۷)
وفی الدرالمختار الخلوۃ بلامانع کالوطی فی تاکد المھر انتھی ۳؎ مختصراً وملخصا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے کہ نکاح کے بعد خلوت وطی کی طرح مہر لازم کردیتی ہے بشرطیکہ خلوت کے دوران کوئی مانع نہ ہو اھ مختصراً وملخصاً واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۳؎ درمختار        باب المہر            مجتبائی دہلی        ۱/۹۹۔ ۹۸)
Flag Counter